اگلے دن جب صبح جب میں سو کر اٹھا تو بیڈ پر نظر ماری تو چا چی وہاں پر نہیں تھی . میں نے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا تو صبح کے 9 بج رہے تھے . میں تو ننگا ہی تھا اور پِھر بیڈ سے اٹھا اور اپنی شلوار اور بنیان اُٹھائی اور باتھ روم میں گھس گیا اور تقریباً آدھے گھنٹے بَعْد نہا دھو کر فریش ہوا اور باتھ روم نے باہر نکل کر چا چی کے کمرے میں رکھے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل پر ہی کھڑا ہو کر اپنے بالوں میں کنگی کی اور پِھر اپنی قمیض پہنی اور کمرے سے نکل آیا اور آ کر ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ گیا . چا چی کچن میں کچھ پکا رہی تھی جب ان کی نظر کھڑکی سے میری طرف پڑی تو مجھے ایک فریش سی مسکان دی اور بولی میرا بیٹا اٹھ گیا ہے . تو میں نے کہا جی چا چی اور پِھر میں نے ٹی وی لگا لیا تقریباً 20 منت کے بَعْد چا چی ناشتہ بنا کر وہاں ہی لے آئی اور پِھر ہم دونوں بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگے اور ناشتے کے دوران چا چی نے پوچھا بیٹا اب اگلا کیا اِرادَہ ہے . تو میں نے کہا چا چی جی میں آج آپ کے مکان کے سودے کے لیے بھاگ دوڑکروں گا اور آج مکان کا فائنل کر کے میں آج رات اسلام آباد چلا جاؤں گا اور وہاں پے اپنا کام نمٹا کر میں واپس ملتان چلا جاؤں گا آپ نے میرے ملتان جانے کے 2 دن بَعْد سائمہ کو کال کر کے بتا دینا ہے . چا چی نے کہا بیٹا آج کی رات رک نہیں جاتے آج رات ایک اور یادگار رات بنا لیتے ہیں میرے جسم میں سے تو رات والا ہی نشہ ختم نہیں ہو رہا ہے . تو میں چا چی کی بات سن کر مسکرا پڑا اور بولا چا چی جی دِل تو میرا بھی بہت کر رہا ہے لیکن مجبوری ہے مجھے کل اسلام آباد لازمی جانا ہے . اور ویسے بھی اب تو جب آپ ملتان آ جاؤ گی تو ہر رات ہی یادگار بنا دوں گا . چا چی میری بات سن کر کھل اٹھی . اور پِھر میں نے اپنا ناشتہ ختم کیا اور چا چی برتن اٹھا کر کچن میں رکھنے لگی. پِھر میں وہاں سے اٹھا اور اپنے بیگ سے کپڑے نکال کر بَدَل لیے اور چا چی کو بولا میں باہر جا رہا ہوں . مجھے دیر ہو جائے گی . میں مکان کے کام کے لیے ہی جا رہا ہوں . اور پِھر میں گھر سے نکل آیا اور میں محلے سے باہر نکل کر بازار میں آ گیا پہلے تو میں نے بازار کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک چکر لگایا اور چیک کرنے لگا کے کہاں کہاں پر پراپرٹی والوں کے دفتر ہیں . چکر لگا کر دیکھا تو کل 5 دفتر تھے . میں پہلے والے دفتر میں چلا گیا وہاں پر اس کو اپنا بتا دیا کے میں کس گھر سے آیا ہوں وہ میرے چا چے کو جانتا تھا اور سمجھ گیا اور بولا کے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں . میں نے اس کو مکان کا بتا دیا تو وہ کچھ دیر سوچتا رہا پِھر بولا کے ویسے تو جلدی میں مکان کا ٹھیک ریٹ نہیں ملے گا لیکن ایک پارٹی ہے اس سے شام کو بات کر کے بتا دوں گا اور اگر ان کا موڈ ہوا تو میں آپ کی ملاقات کروا دوں گا . میں پِھر اس سے اِجازَت لے کر دفتر سے باہر نکل آیا اور پِھر اگلے دفتر کی طرف چل پڑا میں نے اگلے 2 دفتر کے باہر جا کر اندر کا اندازہ لگایا تو مجھے کوئی ڈھنگ کا بندہ نظر نہیں آیا . میں جب بازار کے آخر میں بےچ ہوئے دفتر کے پاس گیا تو اندر دیکھا تو ایک سفید داڑی والا بندہ بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا . میں اندر چلا گیا اور اس کو سلام کیا تو اس نے اخبار سے نظر ہٹا کر مجھے دیکھا اور سلام کا جواب دیا اور بولا جی بیٹا میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں . تو میں وہاں پر رکھی کرسی پر بیٹھ گیا اور اس کو پہلے اپنا بتایا کے میں کس مکان سے آیا ہوں . وہ بندہ مجھے غور سے دیکھنے لگا اور میرے چا چے کا نام لے کر بولا تم ان کے کیا لگتے ہو تو میں بھی تھوڑا حیران ہوا اور بولا کے وہ میرے چا چا جی ہیں تو وہ آگے ہو کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولا کے بیٹا تمہارا چا چا بہت اچھا اور جی دار آدمی تھا میرا بہت یار تھا اور اکثر گھر میں جب اس کا دِل نہیں لگتا تھا تو میرے پاس آ جاتا تھا میں اس سے اس کی فکر کا پوچھتا رہتا تھا لیکن اس نے کبھی بھی اپنی مشکل کا نہیں بتایا لیکن میں جانتا تھا وہ اندر سے خوش نہیں رہتا تھا . لیکن میرے بار بار پوچھنے کی باوجود بھی اس نے کچھ نہیں بتایا اور پِھر ایک دن اِس دنیا کو چھوڑ کر چلا گیا . اور بیٹا تمہیں پتہ ہے جس مکان میں تمہارا چا چا رہتا تھا وہ میں نے لے کر کر دیا تھا تب سے تمہارا چا چا میرا یار تھا . میں نے کہا بس میں بھی اپنے چا چے کی ایک پریشانی کو حَل کرنے کے لیے ملتان سے لاہور آیا ہوں اصل میں میں اپنے چا چے کی فیملی کو یہاں سے واپس لے کر ملتان جانا چاہتا ہوں اِس لیے یہ والا مکان ہم نے بیچنا ہے . اگر آج آپ پِھر ہماری مدد کر دیں تو بہت مہربانی ہو گی . تو اس بندے نے کہا بیٹا تم فکر کیوں کرتے ہو . میں اپنے دوست کا کام نہیں کروں گا تو کس کا کروں گا . تم بتاؤ کب بیچنا چاھتے ہو تو میں نے کہا میں نے آج رات کو ضروری کام سے اسلام آباد جانا ہے اگر آپ جتنا جلدی سے جلدی ہو سکے تو یہ کام کروا دیں تو مسئلہ حَل ہو جائے گا . تو اس بندے نے کہا بیٹا میں آج ہی 1 یا 2 پارٹی سے بات کرتا ہوں تم بے شک اسلام آباد چلے جاؤ میں اپنے یار کے گھر کا اچھا سا سودا کروا دوں گا جس سے اس کی فیملی کو فائدہ ہو سکے تم بے فکر ہو جاؤ . میں نے اس بندے کو اپنا نمبر دے دیا اور بولا جس دن بھی کوئی پارٹ مل جائے اور سودا پکا ہو جائے تو مجھے کاغذی کاروای کے لیے کال کر دیں میں اس دن ہی یہاں آ جاؤں گا . لیکن کوشش کر کے یہ کام 1 ہفتے کے اندر اندر کروا دیں . تو اس بندے نے کہا بیٹا تم بے فکر ہو جاؤ . میں کروا دوں گا اور تمہیں بھی کال کر دوں گا . پِھر میں کچھ دیر مزید بیٹھ کر واپس آ گیا اور دفتر سے باہر نکل کر میں نے اپنے اسلام آباد والے دوست کو کال کی اور اس کو بتا دیا کے میں صبح کی ٹرین سے اسلام آباد آ رہا ہوں تم مجھے وہاں سے پک کروا لینا اور اس کو کہا کے مجھے تمہارا کچھ فارغ ٹائم چاہیے مجھے تم سے بہت ضروری باتیں کرنی ہیں . تو اس نے کہا کوئی مسئلہ نہیں ہے تم کل آ جاؤ میں کل اپنے دفتر نہیں جاؤں گا اور سارا دن تمھارے ساتھ ہی رہوں گا پِھر تم اپنے مسئلہ بھی بتا دینا اور میں تمہیں ثناء کی بھی بات آرام سے سمجھا دوں گا . پِھر میں اپنے دوست کی طرف سے مطمئن ہو کر کچھ دیر گھومنے کے لیے لاہور شہر کی طرف چلا گیا اور گھومتا رہا اور تقریباً 3 بجے کے قریب تھک سا گیا اور پِھر رکشے پر بیٹھ کر واپس گھر آ گیا اور آ کر چا چی نے دروازہ کھولا میں گھر میں داخل ہو کر باتھ روم چلا گیا اور نہا دھو کر باہر نکل آیا تو چا چی نے كھانا لگا دیا تھا میں اور چا چی كھانا کھانے لگے تو چا چی نے کہا اتنی دیر کیوں لگادی میں نے جھوٹ بولا دیا بس مکان کے سودے کے لیے آگے پیچھے بھاگ دوڑ میں ٹائم کا پتہ ہی نہیں چلا اور پِھر چا چی کو اس بندے کی ساری باتیں بتا دیں چا چی بھی مطمئن ہو گئی تھی . پِھر كھانا کھا کر مجھے کچھ تھکن سی محسوس ہو رہی تھی میں نے چا چی کو کہا کے میں کچھ دیر آرام کروں گا تھوڑا سا تھک گیا ہوں اور آج رات کو 8 بجے مجھے نکلنا بھی ہے . اور میں یہ بول کر چا چی والے کمرے میں آ گیا اور بیڈ پر لیٹ گیا اور پتہ ہی نہیں چلا سو گیا تقریباً6:30 پر مجھے چا چی نے جگا دیا اور بولی بیٹا اٹھ جاؤ اور نہا دھو کر تیار ہو جاؤ ٹائم تھوڑا ہے تمہاری ٹرین نکل جائے گی . میں گھڑی پر ٹائم دیکھا اور پِھر اٹھ کر باتھ روم میں گھس گیا اور نہانے لگا اور نہا دھو کر فریش ہو گیا چا چی نے میرے کپڑے تیار کر کے باہر بیڈروم میں بیڈ پر رکھ دیئے تھے میں نے تولیہ بندھا ہوا تھا اور باہر آ کر کپڑے پہن لیے اور بن سنور کر کے کمرے سے نکل کر ٹی وی لاؤنج میں آ گیا 5 منٹ بَعْد ہی چا چی چائے لے کر آ گئی اور میں نے چائے پی اور گھڑی پر ٹائم دیکھا تو7:10 ہو رہے تھے پِھر اپنا بیگ لیا اور چا چی سے اِجازَت لے کر گھر سے نکل آیا اور اسٹیشن کی طرف آ گیا اسٹیشن پر آ کر ٹائم دیکھا تو ابھی 10 منٹ باقی تھے . پِھر میں نے ٹکٹ لیا اور ٹرین میں سوار ہو گیا ٹرین اپنے وقعت پر چل پڑی . میں بھی اپنا بیگ رکھ کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا اور باہر دیکھنے لگا . تقریباً 10 بجے نیند نے مجھے پِھر آ لیا اور میں سو گیا . مجھے بڑی ہی مزے کی نیند آئی اور تقریباً صبح کے 4 ہو رہے تھے جب میری آنکھ کھلی اور پِھر میں اپنی سیٹ سے اٹھ کر ٹرین کے باتھ روم میں گیا منہ ہاتھ دھو کر پِھر کچھ دیر بَعْد آ کر سیٹ پر بیٹھ گیا . تقریباً 5 بجے کے قریب ٹرین راولپنڈی اسٹیشن پہنچ گئی اور میں بھی ٹرین سے باہر نکل آیا ابھی میں ٹرین سے اُتَر کر اسٹیشن پر ہی چل کر باہر کی طرف آ رہا تھا میرا موبائل بجنے لگا میں نے کال سنی تو آگے سے کسی بندے نے کہا سر آپ کہا ں ہے میں آپ کو لینے کے لیے آیا ہوں مجھے اس نے میرے دوست کا نام لیا کے انہوں نے بھیجا ہے . پِھر اس نے اسٹیشن سے باہر نکل کر پارکنگ میں کھڑی اپنی گا ڑی کا حلیہ بتایا اور میں تلاش کرتا کرتا اس کے پاس آ گیا وہ بھی شاید مجھے دیکھ کر سمجھ گیا تھا وہ میرے دوست کا ڈرائیور تھا یہ ایک سرکاری گا ڑی تھی . میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور پِھر وہ مجھے لے کر میرے دوست کے گھر لے آیا جب میں اپنے دوست کے گھر پہنچا تو 6 بج چکے تھے . میرا دوست بھی اٹھ چکا تھا اور مجھے باہر آ کر ملا اور پِھر مجھے گھر میں لے گیا اس کی بِیوِی بھی اٹھی ہوئی تھی میں نے ان کو سلام کیا اور پِھر میرا دوست بولا کے تم تھوڑا کمرے میں جا کر آرام کر لو میں 9 بجے تک ایک چھوٹا سا کام نمٹا کر واپس آتا ہوں پِھر واپس آ کر دونوں ناشتہ کرتے ہیں اور اپنے نوکر کو بولا کے مجھے روم میں لے جائے . وہ مجھے ایک روم میں لے گیا جو بہت ہی اچھا بنا ہوا تھا ڈبل بیڈ لگا ہوا یہ ایک سرکاری گھر تھا جو میرے دوست کو سرکار کی کی طرف سے ملا ہوا تھا . پِھر میں نے بیگ رکھا اور بیڈ پر لیٹ گیا میں نے اپنے موبائل پر8:30 کا الارم لگا دیا اور سو گیا پِھر جب میرا الارم بجا تو میں اٹھ گیا اور باتھ روم بھی اٹیچ تھا میں اس میں گھس گیا اور نہا دھو کر فریش ہو گیا اور پِھر باہر نکل کر بیڈروم میں بیٹھ گیا ٹائم دیکھا تو 9 ہونے میں 10 منٹ باقی تھے . میں نے دیوار پر لگی ایل سی ڈی کو آن کر دیا اور دیکھنے لگا تقریباً 9:20 پر نوکر آیا اور بولا سر آپ کو سر ناشتے پر بلا رہے ہیں . میں نے ایل سی ڈی کو آف کیا اور اس کے ساتھ ناشتے کی ٹیبل پر آ کر بیٹھ گیا میرا دوست اور اس کی بِیوِی وہاں ہی بیٹھے تھے پِھر میں نے ناشتہ کیا اور تقریباً 10 بجے کے قریب میرا دوست اپنی بِیوِی سے بولا میں اپنے دوست کے ساتھ تھوڑا باہر جا رہا ہوں تھوڑی دیر ہو جائے گی تم بازار چلی جانا ڈرائیور کے ساتھ اور پِھر یہ بول کر مجھے لیا اور میں اور وہ اس کی پرائیویٹ کارمیں بیٹھ کر باہر نکل آئے وہ مجھے اسلام آباد کے پہاڑی علاقے کی طرف لے گیا پِھر ایک جگہ پر گا ڑی کھڑی کی اور مجھے ایک موبائل دیا اور بولا کے یہ موبائل ثناء کا ہے میں نے ابھی تک اِس موبائل کو آن کر کے دیکھا بھی نہیں ہے . لیکن مجھے ثناء کی ہاسٹل کی ان چارج نے جو کچھ بتایا وہ میرے لیے بہت تکلیف والا تھا . اب تم اِس موبائل کو آن کرو اور دیکھو اور پِھر خود ہی فیصلہ کر لو کے کیا کرنا ہے . اور میرا دوست موبائل دے کر گا ڑی سے باہر نکل گیا وہ تھوڑی دور جا کر کھڑا ہو گیا اور سگریٹ پینے لگا میں نے موبائل کو آن کیا اور پِھر اس کو دیکھنے لگا پہلے نمبر چیک کیے مجھے کوئی چیز نظر نہیں آئی میں نے اس کی میموری کو اوپن کیا اور اس کی فائل چیک کی کچھ نظر نہیں آیا ویڈیو والا اوپن کیا وہاں پر کچھ گانے پڑے ہوئے تھے پِھر آخر میں تصویروں والا کھولا تو جو پہلی تصویر پر میری نظر پڑی میرے تو پاؤں کے نیچے سے جان ہی نکل گئی . پِھر میں نے ایک ایک کر کے سب تصویروں کو دیکھا تو جیسے جیسے دیکھتا گیا میں حیران اور پریشان ہوتا گیا . کیونکہ وہ تصویریں عام نہیں تھیں وہ ثناء کی اپنی اور کچھ اس کی کسی لڑکے کے ساتھ ننگی تصویریں تھیں . کچھ تصویروں میں ثناء اکیلی ننگی ہو کر کسی بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی . اور کچھ تصویروں میں ثناء کسی لڑکے کی جھولی میں ننگی ہو کر بیٹھی ہوئی تھی . اور نیچے سے وہ لڑکا بھی ننگا تھا . کسی تصویر میں وہ ثناء کو فرینچ کس کر رہا تھا اور ھاتھوں سے ثناء کے گول گول گورے گورے ممے مصل رہا تھا . اور کسی تصویر میں ثناء اس لڑکے کا لن ہاتھ میں پکڑ کر مسل رہی تھی اور دونوں فرینچ کس کر رہے تھے . میرا تو ثناء کی تصویریں دیکھ کر دماغ پھٹنے لگا تھا . پِھر میں کچھ دیر دیکھتا رہا اور پِھر موبائل کو آف کر کے اپنی جیب میں رکھ لیا اور گا ڑی سے باہر نکل آیا . اور اپنے دوست کے پاس چلا گیا جس جگہ ہم کھڑ ے تھے وہاں دور دور تک کوئی بندہ نہ بندے کی ذات تھی . میں اپنے دوست کے پاس گیا تو اس نے کہا یار یقین کر میں نے موبائل کو آن کر کے نہیں دیکھا کیونکہ جو کچھ مجھے ہاسٹل کی ان چارج نے بتایا تھا مجھے موبائل آن کر کے دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑ ی اور میں ساری بات سمجھ گیا تھا اور بہت پریشان ہوا . اور میں نے ابھی تک دوبارہ ثناء سے ملاقات نہیں کی ہے اور نہ ہی اس کو ابھی تک پتہ ہے کے اس کا موبائل میرے پاس ہے اور مجھے سب کچھ پتہ لگ چکا ہے . کیونکہ میں اپنے سامنے اس کو شرمندہ نہیں دیکھ سکتا تھا . پِھر میرے دوست نے کہا یار تم نے اب سب کچھ دیکھ لیا ہے اور سمجھ گئے ہو اب مجھے بتاؤ میں تمھارے لیے کیا کر سکتا ہوں .
مجھے تو خود کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی . پِھر میں کچھ دیر خاموش رہا اور پِھر میں نے اپنے دوست کو کہا یار ثناء یہ کام اس لڑکے کے ساتھ کر چکی ہے وہ اپنی عزت تو خراب کر چکی ہے . اِس کا ایک ہی حَل ہو سکتا ہے اگر ثناء اور اس لڑکے کی آپس میں شادی کروا دی جائے تو ہی بدنامی کم سے کم ہو گی . تو میرا دوست میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا یار تو بہت بھولا ہے . تو جانتا ہے وہ لڑکا کس کا بیٹا ہے . میں اپنے دوست کی طرف دیکھنے لگا اور پِھر میرے دوست نے کہا یار وہ لڑکا کوئی عام گھر کا لڑکا نہیں ہے اس کا باپ ایک سرکاری مہکمے کا بہت بڑا آفیسر ہے اس کی پہنچ مجھ سے بھی بہت زیادہ ہے اور وہ اس باپ کی بگڑی ہوئی اولاد ہے . اور وہ لڑکا تو بس ثناء کے ساتھ اپنے فائدہ نکال کر ایک طرف ہو جائے گا اس نے خود ہی شادی سے انکار کر دینا ہے اور اگر میں اپنی پوزیشن استعمال کر کے اس کو کچھ کروانے کی کوشش کروں گا تو اس کا باپ اس کو ایک گھنٹے میں باہر لے آئے گا اور فائدہ کچھ بھی نہیں ہو گا . اِس لیے میرے دوست کچھ اور سوچ جس سے یہ مسئلہ بھی حَل ہو جائے اور بدنامی بھی نہ ہو . اور پِھر میرا دوست مجھے لے کر گا ڑی میں بیٹھ گیا . میں نے اپنے دماغ پر زور دینا شروع کر دیا اور تقریباً آدھا گھنٹہ گا ڑی میں خاموشی سے بیٹھ کر میں نے ثناء کے متعلق سوچ لیا تھا . میں نے اپنے دوست کو سب سے پہلے سائمہ اور اس کی ماں کی ساری اسٹوری سنا ڈی اور اس لڑکے عمران کا بھی پورا بتا دیا میں نے یہ نہیں بتایا کے سائمہ میری بِیوِی ہے بس یہ ہی کہا کے وہ میری رشتےدار ہیں . میری قسمت اچھی تھی میرا دوست میری شادی پر بھی نہیں آیا تھا . میں نے اپنے دوست کو بتا دیا کے وہ میں اب اپنے رشتےداروں کو واپس ملتان لے کر جانا چاہتا ہوں اور مکان کے سودے کا بھی بتا دیا اور اس کو عمران کا پکا کام کرنے کے لیے اور ویڈیو والے ثبوت کا بھی بول دیا . اور یہ بھی کہہ دیا کے جب میری وہ رشتےدار ملتان شفٹ ہوں گے تو میں ثناء کو بھی واپس ملتان لے جاؤں گا اور وہاں ملتان شہر میں ہی پڑھائی کے لیے داخلا کروا دوں گا . میرا دوست میری ساری بات کو سمجھ گیا تھا اس نے کہا یہ بہت اچھا فیصلہ کیا ہے کے ثناء کو واپس لے جاؤ گے اور اِس میں ہی ہماری بدنامی نہیں ہے . اور رہی بات اس لڑکے کی تم بے فکر ہو جاؤ اس کا ایسا بندوبست کروا دوں گا کے اگر 12 یا14 سال سے پہلے باہر نکل آیا تو پِھر کہنا اور وہ ویڈیو والا ثبوت بھی لے کر ختم کرو دوں گا . اور یہ کام اگلے ہی ہفتے میں ہو جائے گا . اب ہم گھر چلتے ہیں كھانا کھا کر ڈرائیور تمہیں ثناء کے ہاسٹل لے جائے گا تم ثناء کو مل لینا اور پِھر آ جانا آگے تمہاری اپنی مرضی تم کیا کرنا ہے . تو میں نے کہا یار میں كھانا کھا کر ثناء کو مل لوں گا اور پِھر آج رات ہی مجھے واپس ملتان جانا ہے . اور ہو سکتا ہے اگلے 2 یا 3 دن تک مجھے لاہور جانا پڑ ے کیونکہ مجھے مکان کا کچھ کروانا ہے . تو میرا دوست بولا ٹھیک ہے یار جیسے تیری مرضی اور پِھر ہم گھر آ گئے اور دو پہر کو كھانا کھا کر میں ثناء کے ہاسٹل چلا گیا اور ثناء کو جا کر ملا وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئی . میں نے اس کو ذرا سا بھی شق نہیں ہونے دیا کہ مجھے اس کی ساری بات پتہ چل چکی ہے . اور پِھر میں اس کے ساتھ وہاں تقریباً 2 گھنٹے رہا میں نے ایک چیز نوٹ کی میں ثناء کو سعودیہ جانے سے پہلے دیکھ کر گیا تھا اور آج دوبارہ دیکھ رہا تھا . وہ کافی حد تک بدل چکی تھی وہ اب ایک بچی سے ایک مکمل جوان لڑکی بن چکی تھی اس کا جسم بھی کافی بھر چکا تھا اس کے سینے کے ابھار کافی نکل آئے تھے اور میں نے تصویر میں دیکھا تھا اس کے ممے گول گول اور موٹے ہو چکے تھے . اور اس کا پیٹ بھی ایک مناسب پیٹ تھا اور اس کی گانڈ بھی کافی باہر کی نکلی نظر آ رہی تھی . میں سوچ رہا تھا کے اس لڑکے نے پتہ نہیں کتنی دفعہ اِس پھول کو مسئلہ ہو گا جو ثناء اب ایسی دکھنے لگی ہے . اور پِھر میں ثناء سے مل کر اور اس کو کچھ پیسے دے کر واپس اپنے دوست کے گھر آ گیا وہ گھر پر ہی تھا شام تک اس سے باتیں ہوتی رہیں اس نے بتایا میں نے آج ہی لاہور فون کر کے اس لڑکے عمران کی تفصیل چیک کرنے کے لیے ایک بندے کی ڈیوٹی لگا دی ہے اور آج رات تک اس کا پتہ چل جائے گا . اور اِس ہی ہفتے میں اس کا بندوبست بھی ہو جائے گا . پِھر میں نے اپنے سامان لیا اور اپنے دوست سے اِجازَت لی اور اس کا ڈرائیور مجھے اسٹیشن چھوڑ نے آیا اور پِھر میں رات 11 بجے والی کراچی والی ٹرین میں سوار ہو گیا اور اپنے گھر اگلے دِن دو پہر کو 3 بجے واپس ملتان آ گیا .
میں نے راولپنڈی سے ٹرین میں بیٹھ کر ہی چا چی کو بتا دیا تھا کے کام ہو گیا ہے . اور میں آج رات واپس جا رہا ہوں کل دن کو گھر پہنچ جاؤں گا . چا چی بھی یہ سن کر خوش ہو گئی تھی . میں اگلے دن 3 بجے جب گھر پہنچ کر سب سے سلام دعا کر کے پِھر کچھ دیر آرام کے لیے اپنے کمرے میں چلا گیا . رات کا كھانا وغیرہ کھا کر سو گیا سائمہ کا موڈ تھا لیکن میں نے اس کو تھکاوٹ کا بول کر ٹال دیا اور سو گیا اور اگلا دن بھی معمول کے مطابق گزر گیا اور اس رات بھی سائمہ یا نبیلہ کے ساتھ کچھ نہ ہوا ایک بات تھی کہ نبیلہ مجھے گھر میں دیکھ کر خوش ہو گئی تھی . اور میرے آگے پیچھے شاید کسی بات کے لیے موقع تلاش کر رہی تھی . لیکن شاید اس کو مناسب موقع مل نہیں رہا تھا . پِھر وہ دن بھی یوں ہی گزر گیا . مجھے گھر آ کر آج 2 دن ہو گئے تھے . اور اگلے ہی دن شام کو موسم اچھا تھا میں چھت پر ٹہلنے کے لیے چلا گیا . ابھی مجھے چھت پر آئے ہوئے 15 منٹ ہی ہوئے تھے تو سائمہ نیچے سے اوپر چھت پر بھاگتی ہوئی آ گئی اس کا سانس پھولا ہوا تھا وہ بھاگتی ہوئی آئی اور میرے سینے سے لگ گئی اور کچھ دیر تک تو خاموش رہی جب اس کی کچھ سانس بَحال ہوئی تو وہ میرے آنکھوں میں دیکھ کر بولی وسیم آج میں بہت خوش ہوں آج مجھے بہت بڑی خوش خبری ملی ہے اور میں وہ تم کو ہی پہلے سنانا چاہتی ہوں تو میں نے تھوڑا حیران ہو کر اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ بولی آپ کو پتہ ہے مجھے ابھی ابھی تھوڑی دیر پہلے امی کا لاہور سے فون آیا ہے وہ کہتی ہیں کے میں اب لاہور میں نہیں رہ سکتی میرا اکیلے یہاں دِل نہیں لگتا ہے اور میں اب واپس گاؤں آ نا چاہتی ہوں اور تم سب کے ساتھ مل کر رہنا چاہتی ہوں . مجھے تو یہ بات پہلے ہی پتہ تھی لیکن میں سائمہ کو کسی بھی شق میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا . اِس لیے اس کی بات سن کر اپنا موڈ کافی اچھا کر لیا اور خوشی ظاہر کرنے لگا اور اس کو کہا کے یہ تو بہت اچھی بات ہے چا چی واپس گاؤں آ نا چاہتی ہے . میں اور ابّا جی تو پہلے بھی چا چے کے لاہور جانے کے حق میں نہیں تھے لیکن چلو جو ہوا سو ہوا لیکن اب خوشی کی بات ہے چا چی واپس اپنے گاؤں آ نا چاہتی ہے . پِھر سائمہ نے کہا کے وسیم امی کہہ رہی تھی کے وسیم کو 1 یا 2 دن میں لاہور بھیج دو تا کہ میں مکان بیچ کر اپنا سامان لے کر واپس ملتان آ جاؤں تو میں نے کہا ٹھیک ہے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے میں کل یا پرسوں تک چلا جاتا ہوں . اور پِھر سائمہ بھاگ کر نیچے جانے لگی اور کہنے لگی میں امی جی مطلب میری امی کو بھی بتا دیتی ہوں . اور نیچے چلی گئی میں بھی اس کے پیچھے نیچے اُتَر کر آ گیا امی باہر صحن میں ہی تھیں سائمہ جا کر ان کے گلے لگ گئی اور ان کو اپنی امی کی واپسی کا بتانے لگی نبیلہ کچن میں چائے بنا رہی تھی اس نے تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر باہر دیکھا اور پِھر سائمہ کی بات سن کر میری طرف دیکھا تو میں نے اشارے سے اس کو سب اچھا ہے کا بتا دیا وہ بھی مطمئن ہو گئی . میری امی بھی سائمہ کی بات سن کر خوش ہو گئی اور دعا دینے لگی . پِھر نبیلہ چائے لے کر آ گئی . ہم سب نے مل کر چائے پی اور پِھر ٹائم دیکھا تو شام کے 6 بج رہے تھے . سائمہ نے کہا میں آج بہت خوش ہوں میں آج وسیم کے لیے اس کی پسند کی بریانی اور کھیر بناؤں گی اور نبیلہ کو کہا آج تم آرام کرو میں کچن کا کام میں خود کروں گی . نبیلہ بھی اس کی بات سن کر حیران ہوئی . پِھر سائمہ کچن میں گھس گئی اور نبیلہ باہر امی کے ساتھ ہی بیٹھ کر باتیں کرنے لگی میں کچھ دیر بیٹھ کر پِھر اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا . تقریباً 1 گھنٹے بَعْد نبیلہ میرے کمرے میں آ گئی اور آ کر میرے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی . اور مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی . میں نے اس کو لاہور والی چا چی کی اور اپنی پوری اسٹوری سنا دی میں نے نبیلہ کو ثناء کی کوئی بھی بات ابھی نہیں بتائی تھی